بٹ کوائن کی قیمت میں اضافے پر بحث

اصل مضمون وجے بویا پتی کے بلاگ پر شائع ہوا

مضمون وجے بویا پتی نے لکھا۔

ترجمہ فاروق احمد نے کیا۔

2017 میں بٹ کوائن کی قیمتیں آسمان کو چھورہی تھیں ، اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کی طرف سے تیزی اس قدر واضح ہو چکی تھی کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ اصل کرنسی کے متبادل کے طور پر ایک ایسے ڈیجیٹل سکے میں سرمایہ کاری کرنا جسے کسی حکومت یا ادارے کی باقاعدہ حمایت حاصل نہ ہو سراسر بیوقوفی تھی۔ اس کی قیمت بڑھنے سے کچھ لوگوں نے اس کا موازنہ Tulip mania یا پھر dot-com bubble سے کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے کوئی بھی بات درست نہیں ۔ بٹ کوائن کی قیمتوں میں اضافہ سوچنے پر مجبور کر دینے والا ضرور ہے مگر واضح نہیں ہے ۔ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری میں اہم خطرات پیش نظر ہیں جن پر ہم آگے چل کے بحث کریں گے مگر ابھی بھی اس کرنسی میں سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع موجود ہیں ۔

بٹ کوئن کا آغاز ؛

دنیا میں کہیں بھی ، کسی مضبوط ثالث جیسے کہ حکومت یا بنک پر انحصار کیے بغیر “لاکھوں میل دور” پیسے کے لین دین کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ 2008میں ساتوشی ناکاموتو “Satoshi Nakamoto ” نامی ایک شخص نے جو کہ تا حال نامعلوم ہے ، کمپوٹر سائنس کے ایک بہت ہی اہم مسئلے کا 9 صفحات پر مشتمل حل تلاش کر کے اسے شائع کیا۔ کمپیوٹر کے اس مسئلے کو Byzantine General’s Problemکہا جاتا ہے۔اس شخص کے بنائے ہوئے حل اور نظام کے تحت یہ ممکن ہوا کہ ” بٹ کوائن ” کے ذریعے اپنی رقم یا اثاثوں کو لاکھوں میل دور ،بغیر کسی حکومتی یا بینک کاری ثالث کو شامل کئے، برق رفتاری کیساتھ منتقل کیا جا سکے۔ بٹ کوائن کی شروعات نے سائنس اور معاشیات پر اتنے گہرے اثرات مرتب کیئے ہیں کہ اس کارنامہ کو سرانجام دینے کیلئے بلاشبہ ناکاموتو “Nakamoto” وہ پہلا شخص ہونا چاہئے جسے معاشیات کا نوبل انعام اور ٹورنگ ایوارڈ دونوں ملنے چاہئیں۔

کسی سرمایہ کار کے لیے بٹ کوئن کی ایجاد ایک نایاب ڈیجیٹل سکے کے طور پر بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ بٹ کوائنز اصل میں قابل انتقال ڈیجیٹل ٹوکن ہیں جنہیں بٹ کوائن کا نیٹ ورک مائننگ کے عمل سے نکالنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسے مائننگ کا عمل اس لئیے کہا جاتا ہے کہ یہ اسی طریقے سے کان کنی کر کے نکالا جاتا ہے جس طرح سونے کی کان کنی کی جاتی ہے۔ اس میں فرق صرف یہ ہے کہ بٹ کوائن پہلے سے تیار کردہ جدول کے مطابق نکالا جانا ہوتا ہے۔ اس نیٹ ورک کی ڈیزائننگ کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ٹوٹل بٹ کوائنز کی صرف اکیس ملین تک مائننگ کی جا سکے گی۔ اور اس تعداد میں سے زیادہ حصہ پہلے ہی نکالا جا چکا ہے ۔ یہ تحریر لکھنے کے وقت تک سولہ ملین سے زائد بٹ کوائنز کو مائننگ یا کان کنی کر کے نکالا جا چکا ہے ہر چار سال بعد نکالے جانے والے بٹ کوائنز کی تعداد آدھی رہ جاتی ہے اور 2140 تک نئے بٹ کوائنز کی پیداور مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔

بٹ کوائن کو کسی بھی طبعی شے یا ادارے کی حمایت نہیں ہے ۔ کوئی بھی حکومت یا کمپنی اس کی ضمانت نہیں دیتی اور یہ معاملہ ایک نئے سرمایہ کار کے لئیے شکوک و شبہات پیدا کرتا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کی کوئی “قدر” کیوں ہے (یہاں قدر سے مراد قیمت لی جائے گی) اسٹاک ، بانڈز ، رئیل اسٹیٹ حتیٰ کہ تیل اور گندم جیسی اشیاء کے برعکس ان کی چیزوں کی پیداوار کے بدلے اس کرنسی کی مانگ نہیں کی جا سکتی۔ بٹ کوائن ایک بالکل الگ قسم کی اشیاء کے زمرے میں آتا ہے جنہں مالیاتی اشیاء کہا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی قیمت گیم کے نظریات کے طور پر سیٹ کی گئی ہے۔ یعنی کہ ہر مارکیٹ میں کسی بھی شے کا حصہ دار اسکی قدر و قیمت یوں طے کرتا ہے کہ باقی کے دوسرے شرکاء جن میں فروخت کنندہ یا خرید کنندہ شامل ہیں وہ اس کو کتنی قدر دیں گے؟ اس مالیاتی قدر و قیمت کے نظریے کو سمجھنے کے لئیے ہمیں اس ماضی میں پوائنٹ پر جانا ہے جہاں پر “سکہ” رائج ہونا شروع ہوا یا پھر خرید و فروخت کیلئے “پیسہ” استعمال ہونا شروع ہوا۔

پیسے کی ابتداء

پرانے وقتوں میں لوگوں کے درمیان تجارت بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی تھی جس کا مطلب ہے اشیاء کے بدلے اشیاء ۔ لیکن اس نظام میں ناقابل یقین خرابیوں اور جغرافیائی حدود و قیود نے اسے بہت حد تک محدود رکھا ۔ بارٹر کا سب سے بڑا مسئلہ دونوں فریقین کا اشیاء کی ایک ہی “قدر” پر رضامندی تھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی پھل فروش کسی ماہی گیر کے ساتھ تبادلہ کر کے مچھلی حاصل کرنا چاہتا ہے مگر ماہی گیر کو پھلوں کی ضرورت نہیں ہے تو تجارت کا عمل نہیں ہو سکے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے نایاب اور علامتی اقدار کو تجارت کے لئیے استعمال کرنے کا سوچا ۔ مثال کے طور پر Nick Szabo نے پیسے کی ارتقاء پر ایک شاندار مضمون لکھا جس میں وہ کہتا ہے کہ جمع کرنے کیلئے ابتدائی انسانوں نے اپنے حریف ہومونینڈر تھلینسس کی طرز پر ایک الگ طریقہ وضع کیا۔

 

“ذخیرہ اندوزی کا بنیادی اور حتمی ارتقائی فعل دولت کو ذخیرہ کرنے اور منتقل کرنے کا ایک ذریعہ تھا۔”

 

جمع کی جانے والی اشیاء جیسے کہ نمک اور پھر جواہرات وغیرہ نے قبائلی اور نسلی فرقہ جات کے درمیان تجارت کو ممکن بنا کر ایک قسم کی پروٹو منی کا کام کیا۔ پرانے زمانے میں ان اشیاء کی منتقلی اور تجارت بہت کم پیمانے پر ہوتی تھی اور ان عوامل نے ذرائع تبادلہ کی بجائے ذخیرہ کے طور پر کام کرنا شروع کردیا۔ جسے ہم بڑے پیمانے پر ادا کرنے کے لئیے قیمت کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

Szabo وضاحت کرتا ہے کہ؛

“جدید پیسے کے مقابلے میں قدیم پیسے کی منتقلی کی رفتار بہت سست تھی۔ یہ ایک اوسط عمر کے انسان کی زندگی میں صرف چند بار ہی منتقل ہو سکتا تھا۔ جبکہ ایک پائیدار جمع کی جانے والی شے جسے ہم وارثت کا نام دیتے ہیں وہ کئی نسلوں تک برقرار رہ سکتی ہے۔ اور ہر منتقلی میں اس میں خاطرخواہ اضافہ بھی ہو سکتا ہے”

پرانے دور کے انسان ایک انتہائی مشکل وقت سے دوچار تھے جب ان کو فیصلہ کرنا پڑا کہ کس چیز کا ذخیرہ کیا جائے اور ایسی کونسی چیز کی تخلیق کی جائے جسے لین دین میں استعمال کیا جاسکے اور اگلے بندے کو اسکی ضرورت بھی ہو۔ جس سے مالک کو تجارت کرنے میں اور دولت حاصل کرنے میں فائدہ ہو سکے۔ امریکی قبائل جیسے کہ ناراگنیسٹ تجارت میں اپنی قدر بڑھانے کے لئیے بیکار “جمع کی جانے والی ” اشیاء کی تیاری میں مہارت رکھتے تھے۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ جتنی زیادہ جمع کی جانے والی چیزوں کی طلب ہوگی اتنا ہی زیادہ ان کے مالک کو فائدہ پہنچے گاان جمع کی جانے والی اشیاء کو کہیں زیادہ سستا حاصل کیا جا سکتا ہے ، جن حالات میں آبادی کے تقاضے کے مطابق اس کی مانگ اور تجارتی قدر بڑھ جائے ۔ مستقبل میں اسکی قیمت میں اضافے کے پیش نظر اسکو ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوالٹی ، اس کی مانگ اور ذخیرے میں زیادہ تیزی سے اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اقدار کی یہ ظاہری گردش دراصل مانگ کی ایک فیڈ بیک لوپ ہے ۔ جسے انگریزی میں Nash Equilibrium کہا جاتا ہے۔ قیمت کے ذخیرے کا یہ تصور اور توازن کسی بھی معاشرے کے لئیے اعزاز کی بات ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس سے تجارت اور دولت کی تقسیم میں آسانی ہو جاتی ہے۔

 

صدیاں گزرتی گئیں اور تاجروں کو تجارت کے لئے نت نئے علاقے دریافت کرنے کے ساتھ ایک مشکل پیش آنے لگی کہ آیا اپنی چیزوں کے بدلے اپنے علاقے کی قیمتی اشیاء طلب کرنی ہیں یا پھر کسی دوسرے علاقے میں قیمتی سمجھی جانے والی اشیاء کی صورت میں قیمت کا مطالبہ کرنا ہے۔ یا پھر ان دونوں کی کوئی درمیانی صورت نکالی جائے۔ غیر ملکی “جمع کرنے کی اشیاء ” میں تجارت کا فائدہ یہ تھا کہ متعلقہ غیر ملکی تجارت میں فائدہ حاصل ہو جایا کرتا تھا۔ غیر ملکی بچت کو اپنانے والے تاجروں کو اپنے ملک میں تجارت کی ترغیب دینے میں بھی ایک فائدہ تھا کہ اس سے تاجروں کی مقامی قوت خرید میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ درآمد شدہ “قیمتی قدر” نہ صرف درآمد کرنے والے تاجروں کو بلکہ ان معاشروں کو بھی فائدہ دیتی ہے۔ ایک ہی قیمتی قدر پر متفق ہونے والے دو معاشرے ہمیشہ تجارت کی لاگت میں کمی اور منافع میں اضافہ حاصل کریں گے۔ در حقیقت انیسویں صدی وہ پہلا موقع تھا جب پوری دنیا ایک ہی قیمتی قدر میں تجارت پر متفق تھی ، اور وہ قیمتی قدر سونا تھا۔ یہ دور تجارت کی دنیا میں یہ ایک نیا دھماکہ تھا۔ اس دور کے بارے میں Lord Keynes نے کہا تھا کہ :

” انسان کی معاشی ترقی کے لئیے یہ عرصہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔۔۔۔اس دور میں ہر انسان کو کم سے کم پریشانیوں کے ساتھ تمام طبقوں ( بشمول متوسط اور اعلی ) کو ان کی بساط کے مطابق کم سے کم قیمت پر سہولیات زندگی کی فراہمی یقینی بنائی گئی ۔ پرانے زمانے کے امیر ترین لوگ بھی موجودہ دور کی راحتوں اور سہولیات سے کوسوں دور تھے مگر اب لندن کا کوئی عام باشندہ بھی اپنے بستر پہ بیٹھے بیٹھے صبح کی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے صرف ایک ٹیلی فونک رابطے کی بدولت دنیا میں کہیں بھی کسی بھی مالیت اور ماہیت کی شے آرڈر کر کے منگوا سکتا ہے۔”

اچھی “قیمتی قدر” کی صفات

جب قیمتی اشیاء ایک دوسرے سے مقابلہ کرتی ہیں تو ایک پائیدار قیمتی قدرکی حامل شے ، دوسری اشیاء سے منافع کے لحاظ سے سبقت لے جاتی ہے ۔ ایسی قیمتی اشیاء منافع کمانے میں مدد کرتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ بہت ساری پروٹو منی کے طور پر استعمال ہونے والی اشیاء وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئیں اور مختلف ادوار میں استعمال کی جاتی رہی ہیں۔ ان تمام صفات کی بنیاد پر ایک قدر کو “قیمتی شے” کا درجہ دیا جاتا ہے ۔

● پائیدار :قیمتی قدر کے طور پر استعمال ہونے والی شے کو آسانی سے خراب یا تباہ نہیں ہونا چاہئے ۔ مثال کے طور پر گندم اس مقصد کیلئے استعمال نہیں کی جا سکتی۔

● جسے اٹھایا جا سکے :ایسی چیز جس کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکے اور اسے ذخیرہ کرنے میں آسانی ہو ۔ ایسی چیز جسے لمبے سفر میں سنبھالنا آسان ہو سکے اور چوری جیسی وارداتوں سے بچایا جا سکے ۔ مثال کے طور سونے کےایک بسکٹ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا آسان ہے بہ نسبت ایک گائے کے۔

● قابل تبادلہ: قیمتی قدر کے طور پر استعمال ہونے والی شے کا نمونہ یا ایک یونٹ برابر کی مقدار کو دوسرے یونٹ کے ساتھ قابل تبادلہ ہونا چاہئیے ۔ مثال کے طور پر سونے کا ایک خالص تولہ ، سونے کے خالص تولے سے قابلِ تبادلہ ہے جبکہ ایک ہی وزن کے ہیرے کے دو یونٹ اپنی بناوٹ کی وجہ سے قدر و قیمت میں ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔

● قابل تصدیق: اس قیمتی قدر کو موقع پر درست شناخت کیے جانے کے قابل ہونا چاہئے ۔ تا کہ پر اعتماد تجارت کو فروغ دیا جا سکے۔

● قابل تقسیم :اس قیمتی چیز کو ہر لحاظ سے قابل تقسیم ہونا چاہئیے اور تقسیم کا یہ عمل بھی آسان ہونا چاہئیے۔ پہلے معاشروں میں اس کی کم ضرورت پڑتی تھی مگر اب عالمی تجارت نے اس کی مانگ بڑھا دی ہے۔

● قلیل :جیسا کہ Nick Szabo نے قرار دیا کہ ایک اس کا ایک وصف “ناقابل فراموش ” ہونا چاہئیے ۔کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ نایاب چیزوں کو جمع کیا جا سکے۔ اس کی قلت ہی ہر دور میں اس کی یکساں مانگ میں اضافے کا سبب بنتی ہے ۔

● قائم شدہ تاریخ: معاشرے کی طرف سے کسی بھی چیز کو جتنے زیادہ عرصہ کے لیے قیمتی قدر کے طور پر استعمال کیا جائے اسکی مانگ میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے۔ نئی آنے والی قیمتی شے کو پرانی مروجہ قدر کو ہٹانے کیلئے اوپر بیان کردہ اوصاف میں نمایاں گرفت ہونا بہت ضروری ہے۔

● احتساب کے مزاحم :یہ ایک نیا وصف ہے جو کہ آج کے معاشرے میں جڑ پکڑ گیا ہے۔ یہ حکومت یا کسی دوسرے ادارے کی طرف سے اس کے موجودہ مالک کو اس شے کے استعمال سے روکنا ہے ۔ سنسرشپ کے خلاف مزاحم ہونا ایک اہم وصف ہے۔ تبدیلی کی مزاحم اشیاء حکومتوں کے زیر اثر زندگی گزارنے والے لوگوں کے کیلئے مثالی زر ثابت ہوتی ہیں۔

نیچے دئیے گئے چارٹ میں بٹ کوائن کی اوپر دی گئی خصوصیات کی مخالفت اور اس سلسلے میں ہر ایک پوائنٹ کی وضاحت کی گئی ہے۔

پائیداری

پائیداری کے لحاظ سے سونا زر کے ذخیرہ کا غیر متنازع بادشاہ ہے۔ فرعونوں کے دور کے سونے سمیت سونے کا کوئی بھی ٹکڑا جو آج تک دریافت کیا گیا ہے ، وہ آج بھی دستیاب ہے اور اگلے آنے والے ایک ہزار سال میں بھی قیمتی زر کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جائے گا ۔ فرعونوں کے زمانے میں استعمال ہونے والے سکے آج بھی موجود ہیں اور اسی قدر کے حامل ہیں۔ Fiat کرنسی اور بٹ کوائنز دراصل ڈیجیٹل کرنسی کی اقسام ہیں جو کہ ضرورت پڑنے پر کاغذی نوٹوں میں تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح ان کی طبعی پائیداری کا اظہار ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک پھٹے ہوئے نوٹ کو ہم تبدیل کروا کر نیا نوٹ حاصل کر سکتے ہیں۔ فیاٹ کرنسیوں کے مقابلے میں کئی حکومتیں آئیں اور کئی حکومتیں غائب ہو گئیں اور ان کی کرنسیاں بھی انہیں کے ساتھ چلی گئیں۔ ویمارریپبلک کے پیپر مارک ، رینٹین مارک ، اور ریخ مارک کی اب کوئی قدر نہیں ہے کیونکہ انہیں ایجاد کرنے والا ادارہ اب موجود نہیں ہے۔ اگر تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو فیاٹ کرنسیوں کو طویل مدت کے لئیےپائیدار سمجھنا ایک حماقت کہلائے گا ۔

بٹ کوائنز دراصل اس وقت تک پائیدارہیں جب تک ان کو محفوظ رکھنے والا نیٹ ورک موجود ہے۔ بٹ کوائن ابھی ارتقائی مراحل میں ہے اس لئے اسکی پائیداری کا پیمانہ نافذ کرنا ابھی درست نہیں ہوگا۔ مگر اس کے حق میں جانے والے ثبوت اس کا بغیر کسی حکومتی سرپرستی کے موجود رہنا اور کئی سالوں میں ہیکرز کے حملوں سے اس کا محفوظ رہنا شامل ہیں ۔ یہ اسکی “اینٹی فرجیلیٹی” کی نمایاں خصوصیت ہے۔

پورٹیبلٹی

بٹ کوائن اب تک کی سب سے پورٹ-ایبل کرنسی کے طور پر استعمال ہونے والے زر کی ایک قسم ہے۔ سینکڑوں ملین ڈالرز کے اثاثوں تک رسائی کیلئے استعمال ہونے والی keys ایک چھوٹی سی USB میں رکھی جا سکتی ہیں۔ اور انہیں آسانی سے ایک جگہ سےدوسری جگہ لے منتقل جا سکتا ہے۔ اتنی ہی مقدار کے اثاثوں کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بحفاظت لے جایا جا سکتا ہے۔ فیاٹ کرنسیوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہیں نہ صرف فوری طورپر منتقل کیا جا سکتا ہے بلکہ دیگر کرنسیوں پر حکومتی کنٹرول کی وجہ سے اتنی بڑی مقدار میں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں تاخیر ہو جاتی ہے۔ کیش کو سرمائے کے کنٹرول سے بچانے کے لئیے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر اس میں لاگت زیادہ آتی ہے۔ سونا اپنی طبعی حالت کی وجہ سے اس قدر پورٹ ایبل نہیں ہے۔ بلینز کی مقدار میں سونے کی منتقلی تقریباً نا ممکن ہے کیونکہ اتنی بڑی مقدار میں سونے کی منتقلی پر لاگت اور وقت دونوں کا برابر رسک رہتا ہے۔ اور اتنے فاصلے پراتنی بڑی مقدار میں سونا منتقل کرنا خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔

فنجیبلٹی

سونا فنگیبیلٹی کے معیار پر پورا اترتا ہے پگھلے ہوئے سونے کا ہر یونٹ دوسرے یونٹ کے برابر ہوتا ہے۔ اور اسی طرح معاشروں میں تجارت کرتا رہتا ہے جبکہ فیاٹ کرنسیاں اتنی ہی فنجبل ہوتی ہیں جتنا اسے جاری کرنے والے ادارے اجازت دیتے ہیں۔ جیسا کہ تمام نوٹوں کو برابر طور پر استعمال کیا جائے ۔ مگر ایک مثال جیسے کہ ہندوستان میں پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹ پر مقررہ حد بندی کی وجہ سے پرانے نوٹوں کو ان کی اصل قیمت سے کم لاگت پر تجارت میں لایا گیا۔ چونکہ بٹ کوائنز کا بلاک چین پر آسانی سے پتا لگایا جا سکتا ہے اس لئے اگر کوئی بٹ کوائن کسی غیر قانونی لین دین میں استعمال ہوا ہو تو اسے نشان زدہ کردیا جاتا ہے ۔ اس طرح اس کی قدر میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ بٹ کوئن میں پرائیویسی اور گمنامی کے اصولوں میں بہتری کے بغیر سونے کی طرح بٹ کوائن میں فنجیبل ہونے کی کوالٹی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

تصدیق کی اہلیت

زیادہ تر اداروں اور مقاصد کے لئیے فیاٹ کرنسیوں اور سونے کی تصدیق نہایت آسان ہے۔ تاہم ان کو جعل سازوں سےنہیں بچایا جا سکتا ۔ نوٹوں کی پہچان کے لئے ، ان نوٹوں کو جاری کرنے والے مجاز ادارے کچھ مخصوص نشانیاں فراہم کرتے ہیں جن سے نوٹ کی پہچان ممکن ہوتی ہے مگر جعلسازی کو روکا پھربھی نہیں جا سکتا۔ اسی طرح سونے کی جگہ ، سونے کا پانی چڑھائی ہوئی دھات کو بھی دھوکہ دہی کے لئیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ بٹ کوائن کو ایک ریاضیاتی منطق کے حوالے سے اصل ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اور مخصوص کوڈ کا حامل ہونے کی وجہ سے اس کا مالک اپنی ملکیت ثابت کرسکتا ہے۔

تقسیم کی صلاحیت

بٹ کوائن کو اس کے ایک سو ملین حصے کر کے تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔اور ہر ایک حصے کو قابل ترسیل بنایا جا سکتا ہے ۔ ہاں البتہ ترسیل کرنے کی مد میں فیس اتنے مائکرو حصے کو ٹرانسفر کرنے کی اجازت نہ دے تو الگ بات ہے۔ فیاٹ کرنسیوں کو عام طور پر چھوٹے سکوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے جو صرف انکی قوت خرید پر اثرانداز ہو تے ہیں ۔ مگر سونے کو چھوٹی موٹی تجارت میں استعمال کرنے کے لئیے طبعی طور پر اتنی چھوٹی مقدار میں تقسیم کرنا ممکن نہیں ہے۔

قلت

قلت ایک ایسا عنصر ہے جو کہ بٹ کوائن کو دوسری کرنسیوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ڈیزائن کیے گئے پیٹرن کے مطابق زیادہ سے زیادہ اکیس ملین تک بٹ کوائنز جاری کیے جا سکتے ہیں۔ بٹ کوائن کے مالک کو معلوم ہوتا ہے کہ کتنے فیصد لوگ اس کی ممکنہ مقدار کو ملکیت کے طور پر رکھ سکتے ہیں۔ سونے کی سپلائی بہت کم مقدار میں رہ گئی ہے مگر ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس کے موجودہ ذخائر میں اضافہ ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ سونے کے نئے ذخائر سمندر کی تہہ اور پہاڑوں وغیرہ میں تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ جس سے سونے کی کل مقدار میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ جبکہ فیاٹ کرنسیوں کے جاری کرنے والے ادارے معاشی نظام کی مشکلوں کو حل کرنے لئیے اس کو زیادہ مقدار میں جاری کر سکتے ہیں جس سے ذخیرہ کرنے والوں کے بچت کردہ اثاثوں میں نمایاں کمی واقع ہو جائے گی۔

قائم شدہ تاریخ

کسی بھی قیمتی زر کی قدر اتنے لمبے عرصے تک قائم نہیں رہ سکتی جتنی کہ سونے کو حاصل ہے اور یہ رہتی دنیا تک قائم رہنے والی ہے۔ سونا شروع سے لیکر آخری مروجہ سکے تک اپنی ایک ہی شکل میں برقرار رہتا ہے جبکہ فیاٹ کرنسیوں کے بارے میں یہ رائے درست نہیں ہے۔ فیاٹ کرنسیاں عالمی طور پر بے کار ہونے کے مواقع فراہم کرتی رہی ہیں۔

بیسویں صدی تک عالمی زر کی منڈیوں میں فیاٹ کرنسیوں کا غلبہ رہا ہے۔ مگر مضبوط مالیاتی قدر کے طور پر ان کرنسیوں کے وجود پر لمبے عرصے تک اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ بٹ کوائن نے اپنی مختصر تاریخ سے یہ ثابت کیا ہے کہ اسکو ان تمام خوبیوں میں سبقت حاصل ہے۔ اور بہت حد تک امکان ہے کہ بٹ کوائن کو قیمتی اثاثے کے مقام سے جلدی نہیں ہٹایا جا سکتا۔ لیکن Lindey Effect کو سمجھنے کیلئے درج ذیل گراف مددگار ہو سکتا ہے۔

اگر بٹ کوائن اگلے بیس سال تک اپنی دستیابی برقرار رکھتا ہے تو یہ ایک اٹل حقیقت بن جائے گا کہ بٹ کوائن ہمیشہ مروج رہے گا۔ کیونکہ انٹرنیٹ نے جدت کی نئی بلندیاں اور دنیائیں متعارف کرائی ہیں۔

احتساب کی مزاحمت

بٹ کوائن کی ارتقاء سے اس کی مانگ کی پہچان صرف غیر قانونی تجارت میں استعمال ہونے والی کرنسی کے طور پر تھی ۔ لوگوں نے غلطی سےسمجھ لیا کہ بٹ کوائن کی مقبولیت میں اضافہ اس کی گمنامی کی وجہ سے ہے۔ مگر اصل میں بٹ کوائن گم نامی جیسی چیز سے کوسوں دور ہے، بلکہ بٹ کوائن میں ہونے والی ہر ٹرانزیکشن یا منتقلی بلاک چین کی صورت میں ڈیجیٹل طریقے سے بٹ کوائن نیٹ ورک پر یکجا کی جاتی ہے۔ یہ پبلک سٹوریج بعد میں ہر قسم کے حساب اور احتساب کے کام آتی ہے تا کہ رقوم کے بہاؤ کا ذریعہ ایک معلوم طریقے سے سامنے رکھا جائے۔ اسی تجربہ کے ذریعے MT Gox کی مشہور زمانہ ڈکیتی جیسی واردات کو ٹریس کرنا ممکن ہوا۔ اسے ناجائز مارکیٹ میں استعمال کے لئے ممکن بنانے والی چیز اس کا نیٹ ورک پر بغیر اجازت دستیاب ہونا تھا۔ جب ایک نئے بٹ کوائن کو نیٹ ورک پر منتقل کیا جاتا ہے تو اس کو peer to peer استعمال کے قابل بنایا جاتا ہے۔ اس سارے معاملے میں کوئی انسانی مداخلت نہیں ہوتی ۔ اور یہی چیز اس کو سنسرشپ کے خلاف مزاحمت فراہم کرتی ہے۔ یہ فیاٹ کرنسیوں کے بالکل الٹ ہے جیسا کہ ریاستیں رقم کی ترسیل اور دوسری اشیاء پر مانیٹرنگ وغیرہ لاگو کرتی ہیں۔ کیپٹیل کنٹرول اس کی عمدہ مثال ہے ، مثال کے طور پر ایک امیر کروڑ پتی کو اپنی دولت ایک ڈومیسائل سے دوسرے میں ٹرانسفر کرنے کے لئیے بڑے کٹھن عمل سے گزرنا پڑے گا اگر وہ کسی سخت کنٹرول رکھنے والی حکومت کے ضابطے سے دوچار ہو۔

بٹ کوائن اس طرح کے ضابطوں سے آزاد ہے۔ اسی قسم کے ضوابط کی مثال انڈیا کا گولڈ کنٹرول ایکٹ ہے۔ بٹ کوائن اوپر بیان کی گئی تمام خصوصیات کیوجہ سے سبقت لے جاتا ہے۔ بٹ کوائن انہی خصوصیات کی وجہ سے جدید اور قدیم تمام زر کے پیمانوں کیساتھ مقابلے کی صف میں آجاتا ہے۔ اس لئیے اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیرطبقہ اپنے اثاثہ جات کو اس نوزائیدہ قدر میں ڈھالنے سے نہیں کترا رہا ۔

پیسے کا ارتقاء

جدید پیسے کے ارتقاء میں “میڈیم آف چینج” کی ضرورت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ بیسویں صدی سے ریاستوں نے پیسے کے اجراء پر اجارہ داری حاصل کرکے اس کو قیمتوں کے متبادل کے طور پر استعمال کر کے اسے کمزور کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ اس سے یہ غلط تاثر پیدا ہوا کہ پیسے کو بنیادی طور پر تبادلے کا ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ بٹ کوائن کو ایک نہایت غیر موزوں تبادلے کے میڈیم کے طور پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ شروع میں بٹ کوائن کی قیمت نہایت غیر مستحکم رہی ہے۔ پیسہ ہمیشہ سے جن مراحل میں تیار ہوا ہے ان میں تبادلے کے میڈیم کے طور استعمال ہونے سے پہلے اس کو مقدار کے ذخیرے کو طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ معیشت دان William Stanley Jevons کہتا ہے کہ

” تاریخی طور پر ایسا لگتا ہے کہ سونے نے سب سے پہلے سجاوٹی مقاصد کے لئیے ایک قیمتی شے کے طور پر کام کیا ، دوسرا ذخیرہ شدہ دولت کے طور پر اور تیسرا تبادلے کے میڈیم کے طور پر اور آخر میں قیمت کی پیمائش کے طور پر “

پیسے کے لئے استعمال ہونے والی جدید اصطلاحات کی روشنی میں پیسہ ہمیشہ مندجہ ذیل مراحل سے گزر کر تیار ہوتا ہے۔

1. جمع کرنے کی اشیاء ؛ ارتقاء کے پہلے مرحلے میں صرف جمع کرنے کی حد تک ان اشیاء کا مطالبہ کیا جاتا ہے جیسے کہ ہیرے ، موتی اور جواہرات وغیرہ صرف اس شخص کے جمع کرنے کی دلچسپی کے طور پر طلب کیے جاتے ہیں۔ اور بعد میں اشیاء کے تبادلے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

2. قیمت کا ذخیرہ ؛ ایک دفعہ جب لوگوں کی طرف سے ذخیرہ کے طور پر مطالبہ زور پکڑ جائے تو لوگ اس پر ایک تو اشیاء کے قیمتی ذخیرہ ہونے کی وجہ سے اعتماد کرنے لگتے ہیں دوسرا وقت کے ساتھ ساتھ قدر کم نہ ہونے کی وجہ سے بھی مقبولیت زور پکڑتی ہے۔ اور قیمت کے ذخیرے کے طور پر جب اس کی پہچان بڑھے گی تو اسکی قوت خرید میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ یہاں تک کہ اسکی قدر ایک سطح مرتفع سی رہ جائے گی اور یوں ایک وقت کے بعد صرف قیمت کے ذخیرے کے طور پر نئے لوگ اسکو استعمال کرنا کم کر دیں گے۔

3. زرمبادلہ کا ذخیرہ ؛ جب قیمتی شے کی مقبولیت قیمت کے ذخیرہ کے طور پر بڑھنے لگتی ہے تو اس کی قوت خرید میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بھی مستحکم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس حد تک قیمت میں کمی آجاتی ہے کہ اسے زر مبادلہ کے طور پر استعمال کے لئے طلب کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔ مگر بٹ کوائن کا استعمال زرمبادلہ کے طور پر کیا گیا نا کہ اس کی شروعات ذخیرہ کرنے کی اشیاء کے طور پر ہوئی۔ اس کی مثال یوں ملتی ہے کہ ایک شخص نے دو پیزا کی قیمت کے طور پر دس ہزار بٹ کوائنز کی تجارت کی۔

4. اکاؤنٹ کی اکائی ؛ جب کسی بھی کرنسی کو زرمبادلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اشیاء کی قیمتیں بھی اسی حساب سے رکھی جاتی ہیں۔ یعنی کہ زرمبادلہ کا تناسب زیادہ مقدار میں دستیاب ہوگا۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ بٹ کوائن بہت سی چیزوں کی قیمت کے طور پر دستیاب ہوگا۔ ایسا نہیں ہے کیونکہ مثال کے طور پر ہم کافی شاپ پر بل کی ادائیگی بٹ کوائن کی صورت میں نہیں کر سکتے ۔ اسکو پہلے ڈالر میں کنورٹ کرنا ہوگا۔ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے اگر مرچنٹ شرح مبادلہ کے کم یا زیادہ ہونے کی پرواہ کئے بغیر ادائیگی کو بٹ کوائن کی شکل میں قبول کرنے پر تیار ہوجائے۔

مالیاتی اعتبار سے جو اشیاء پیسے کی اکائی نہیں، انہیں جزوی طور پر مونیٹائز ہونے کا اختیار حاصل ہے۔ مثال کے طور پر سونا ان تمام خصوصیات کا حامل ہے مگر حکومتی کنٹرول نے اس سے اکاؤنٹ کی اکائی ہونے کی خاصیت چھین لی ہے ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک قدر پیسے کے تبادلے کے طور پر کام کرے جبکہ دوسری قدر کو اقدار کے ذخیرے کے طور پر استعمال کیا جائے ۔ ارجنٹائن جیسے غیر فعال معاشی نظام اس کو آج بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ نتھینیل پوپر اپنی کتاب ڈیجیٹل گولڈ میں لکھتے ہیں کہ :

“امریکہ میں، ڈالر بغیر کسی رکاوٹ کے پیسے کے تین کام انجام دیتا ہے: زر مبادلہ کا ایک ذریعہ فراہم کرنا، سامان کی قیمت کی پیمائش کے لیے ایک یونٹ، اور ایک ایسا اثاثہ جہاں قیمت کو ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف ارجنٹائن میں، پیسو (ارجنٹائن کی کرنسی) کو روزانہ کی خریداریوں کے لیے زر مبادلہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا ۔ کسی نے اسے قیمت کے ذخیرہ کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ پیسو میں بچت رکھنا پیسہ پھینکنے کے مترادف تھا۔ اس لیے لوگوں نے پیسے کا تبادلہ کیا جسے وہ ڈالر میں بچانا چاہتے تھے، جس سے ان کی قیمت پیسو سے بہتر تھی۔ چونکہ پیسو بہت غیر مستحکم تھا، لوگوں کو عام طور پر ڈالر میں قیمتیں یاد رہتی تھیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ پیمائش کی ایک زیادہ قابل اعتماد اکائی فراہم کرتی تھی۔”

بٹ کوائن نے ابھی تک مونیٹائزیشن کا دوسرا مرحلہ طے کیا ہے۔ اسے قیمت کے ابتدائی ذخیرے سے تبادلے کا ذریعہ بنانے کے لئے ابھی کئی سال لگ جائیں گے۔ اور یہ تمام سفر ابھی بھی خطرے اور غیر یقینی سے بھرپور ہے، سونے کو یہ تمام مراحل طے کرنے میں کئی صدیاں لگیں ۔ اور کسی بھی انسان نے اپنی حقیقی زندگی کے دورانیے میں کسی بھی قدر کو مونیٹائزیشن تک پہنچتے نہیں دیکھا۔ اور بٹ کوائن یہ تمام سفر طے کر رہا ہے۔

راستے پر انحصار

مونیٹائزیشن کے سفر میں ایک مثبت مرحلہ اسکی قوت خرید میں اضافہ ہونا ہے۔ اور لوگوں کے مطابق بٹ کوائن کی قوت خرید میں اضافہ ابھی صرف ایک بلبلے کی شکل اختیار کر سکا ہے ۔ یہ ایک ناگوار اصطلاح ہے مگر یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ بٹ کوائن کی قدر زیادہ ہے۔ یہاں ان تمام چیزیوں کو جو زر کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، ان میں ایک چیز مشترک ہے کہ قوت خرید میں اضافے کا جواز ان کی قدر کی مالیت سے ملتا ہے۔

کسی چیز کی قوت خرید اس کی فطری افادیت کے لئے اس کے قیمتی تبادلے کے درمیان فرق کو ” مانیٹری پریمیئم ” کہا جاتا ہے۔ جو بھی “قدر” موناٹائزیشن کے مرحلے سے گزرتی ہے اسکا مانیٹری پریمیئم بڑھے گا۔ پریمیم ایک سیدھی لائن کی صورت میں نہیں بڑھتا بلکہ ایک چیز x کا مقابلہ y سے ہوسکتا ہے جبکہ یہ دونوں مونیٹایزیشن کے مرحلے میں ہوں ۔ ایسی صورت میں پہلی چیز کا مونیٹایزیشن پریمیم گرنا شروع ہوجائے گا یا پھر ختم ہوجائے گا۔ جیسے کہ دنیا بھر میں سونے کو مونیٹایزیشن میں مقبولیت ملنے کے بعد چاندی کا مونیٹایزیشن پریمیم غائب ہی ہو گیا ۔

یہاں تک کہ حکومتی مداخلت جیسے دیگر خارجی عوامل کی عدم موجودگی کی بدولت ایک نئی قدر کے لئے بڑھوتری کے راستے ہموار نہیں ہوتے۔ ماہر اقتصادیات لیری وائٹ کہتے ہیں :

“بلبلے کی کہانی کے ساتھ مصیبت، یقینا، یہ ہے کہ یہ کسی بھی قیمت کے راستے سے مطابقت رکھتا ہے، اور اس طرح کسی خاص قیمت کے راستے کی کوئی وضاحت نہیں کرتا ہے۔”

مونیٹایزیشن کا یہ عمل گیم تھوریٹک کے طرزعمل کا ہے ۔ شرکاءکار میں سے ہر کوئی دوسرے شرکاء کی مانگ اور مستقبل کی مانیٹری پریمیئم کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ مانیٹری سسٹم کسی بھی موروثی افادیت کے پیمانے سے منسلک نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قدر کی پرانی قیمت اور اس چیز کا اندازہ کرتے ہیں کہ چیز کو خریدا جا رہا ہے یا پھر بیچا جا رہا ہے۔ راستہ انحصار کے طور پر موجودہ مانگ کا تعلق پرانی قیمتوں سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جب کسی قیمتی قدر کی قوت خرید بڑھ جاتی ہے تو اس کے سامنے سستے اور مہنگے ہونے کے تصورات بدل جاتے ہیں۔ اور عام طور پر یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قیمتی شے کی قیمتیں گرنے سے پہلے کی قیمتیں غیر معقول تھیں۔ پیسے پر انحصار کی اہمیت وال سٹریٹ کے مشہور فنڈ مینیجر کے الفاظ سے واضح ہو جاتی ہے۔

“میں نے 2300 ڈالر فی بٹ کوائن کے حساب سے بٹ کوائنز خریدے اور میرے ہاتھوں میں فوری طور پر قیمت دگنی ہو گئی۔ پھر میں نے یہ کہنا شروع کیا کہ “میں اس سے زیادہ نہیں خرید سکتاکیونکہ یہ بڑھ گیا، حالانکہ یہ رائے اس قیمت کے علاوہ کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے جس پر میں نے اسے اصل میں خریدا تھا۔ پھر، جیسا کہ ایکس چینجز پر چینی کریک ڈاؤن کی وجہ سے پچھلے ہفتے اس کی قیمت گر گئی، میں نے اپنے آپ سے کہنا شروع کر دیا، “اوہ اچھا، مجھے امید ہے کہ یہ مزید گرے گا تاکہ میں مزید خرید سکوں۔”

حقیقت یہ ہے کہ مالیاتی چیزوں کے طور پر سستے اور مہنگے جیسی اصطلاحات بالکل بے معنی ہیں ۔ مالیاتی قدر کی قیمت ان کے وقتی بہاؤ سے متعین نہیں کی جاتی۔ بلکہ اس بات کا حساب لگایا جاتا ہے کہ اس چیز کو کتنے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

پیسے کی راہ پر منحصر نوعیت کو مزید پیچیدہ بنانے کے لئے یہی کافی ہے کہ مارکیٹ کے شرکاء مستقبل کی نقل و حرکت سے وابستہ خریدو فروخت کر کے مانیٹری پریمیم کے تحت کام کرتے ہیں کیونکہ کوئی بھی مانیٹری پریمیئم مکمل حد تک درست نہیں ہوتا ۔ اس لئے قیمتی چیزوں کی صفات کے لحاظ سے فرق پایا جاتا ہے ۔ ان کی طلب بالآخر نقد بہاؤ یا پھر طلب سے منسلک ہوتی ہے۔ بٹ کوائن مارکیٹ کے شراکت داروں میں مذہبی جوش و خروش دیدنی ہے وہ دوسروں کو اس کے فوائد سے آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ اس میں سرمایہ کاری کر کے کمائی جانے والی رقم کو فروغ دیتے ہیں۔ لی ڈروجن کہتے ہیں کہ ؛

“آپ اسے ایک مذہب کے طور پر تسلیم کرتے ہیں ۔ ایک ایسی کہانی جو ہم سب ایک دوسرے کو سناتے ہیں اور اس پر متفق ہیں۔ مذہب وہ اختیار ہے جس کے بارے میں ہمیں سوچنا چاہیے۔ یہ تقریباً کامل ہے ۔ جیسے ہی کوئی اسے اپنا لے گا، وہ سب کو بتانا شروع کر دے گا اور بشارت دینے نکل جائے گا ۔ پھر ان کے دوست اندر آتے ہیں اور وہ اس کی بشارت دینا شروع کر دیتے ہیں۔”

اگرچہ مذہب سے موازنہ کرنے پر بٹ کوائن صرف ایک غیر معقول چمک ثابت ہو لیکن انفرادی سطح پر ایک اعلی مالیت کی بھلائی کی بشارت دینا اور اسے معاشرے کی بھلائی کے لئیے استعمال کرنا بالکل عقل کے زمرے میں آتا ہے۔ کیونکہ زر کی اعلی شکل کو اپنانے سے معاشرے میں برابر دولت کی تخلیق کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔

رقم کمانے کی شکل ؛

اس کے بارے میں کوئی ترجیحی اصول نہیں ہیں کہ ایک مالیاتی قدر ہونے کے بعد اس شے کو کن خطوط سے گزرنا ہے مگر بٹ کوائن کی مونیٹایزیشن کی مختصر سی تاریخ کا ایک اہم واقعہ سامنے آیا ہے کہ بٹ کوائن کی قیمت بڑھتی ہوئی شدت کے پیٹرن کو فالو کرتی ہے۔ جہاں اس کی ہر تکرار گارنٹر ہائپ سائیکل کی کلاسک صورت سے ملتی ہے۔

قیاس آرائی پر مبنی بٹ کوائن اپنانے / قیمت کے نظریے کو اپنے مضمون میں مائیکل کیسی نے کہا ہے کہ ایک پھیلتے ہوئے گارنٹر ہائپ سائیکل کو اپنانے کے S curve کے مراحل کی نمائندگی کرتے ہیں جس کے بعد بہت سی تبدیلی کی حامل ٹیکنالوجی کا استعمال ہونے لگتا ہے کیونکہ وہ معاشرے میں عام ہو جاتی ہیں۔

ہر گارنٹر ہائپ سائیکل نئی ٹیکنالوجی کے لیے بڑے جوش و خروش کیساتھ شروع ہوتا ہے۔ مارکیٹ کے حصےدار بولیاں لگاتے ہیں اور اس تکرار میں یہ قابل رسائی ہوتا ہے۔ گارنٹر ہائپ سائیکل کے سرمایہ کاروں کو پختہ یقین ہوتا ہے اور یوں ان لوگوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو بنیادی ٹیکنالوجی کی بجائے فوری منافع میں دلچسپی کی قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔

ہائپ سائیکل کے عروج کے بعد مایوسی اور طنز جگہ لے لیتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کبھی بھی تبدیلی لانے والی نہیں تھی اور یوں قیمت کم رہ جاتی ہے۔ اور اس کے نتیجے میں پختہ یقین کے ساتھ اصل سرمایہ کار نئے لوگوں کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ یہ لوگ نقصانات کو برداشت کرتے ہیں اور ترقی پر یقین رکھتے ہیں۔

یہ سطح ایک لمبے عرصے تک قائم رہتی ہے ۔ کیسی نے اسے ایک مستحکم بورنگ کام کا نام دیا ہے۔ اس دورانیے میں ٹیکنالوجی میں عوام کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے مگر یہ برابر ترقی کرتی رہتی ہے ۔ مضبوط اعتقاد کے لوگوں کی مدد سے ایک نئی بنیاد رکھی جائے گی۔ اگلی تکرار تک باہر کے مبصرین یہ تسلیم کر لیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی واقعی بڑھتی جا رہی ہے اور اس میں سرمایہ کاری کرنا فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے ہائپ سائیکل میں تکرار کرنے والوں کا ایک نیا مجموعہ آئے گا اور بڑے وسیع پیمانے پر تکرار ہوگی۔

اس تکرار میں بہت کم لوگوں کو قیمتوں میں اضافے کے بارے میں اندازہ ہوگا۔ اس مرحلے میں قیمتیں اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ پہلے شرکاء کو شاید مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہوں۔ جب یہ سائیکل ختم ہو جاتا ہے تو میڈیا اس خاص وجہ کو حادثہ قرار دینا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ اصل وجہ کچھ اور تھی۔ یہاں پر گارنٹر ہائپ سائیکل شرکاء کی تھکن اور عدم دلچسپی سے ختم ہو جاتا ہے۔

سونا بھی 1970 سے 2000 تک گارنٹر ہائپ سائیکل سے گزرا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہائپ سائیکل ایک سماجی متحرک ہے۔

گارنٹر گروہ :

2010 میں پہلی ایکسچینج پرائس کے بعد سے بٹ کوائن نے چار بڑے گارنٹر ہائپ سائیکل دیکھے ۔ ہم ان تمام سائیکلوں کی قیمت کا اندازہ کر سکتے ہیں اور تکرار میں شامل شرکاء کو شناخت بھی کر سکتے ہیں ۔

0$-1$(مارچ 2009-2011) سائپر پنکس ، خفیہ نگاروں اور کمپیوٹر سائنسدانوں کا غلبہ بٹ کوائن کے پہلے مارکیٹ سائیکل سے ہی موجود تھا ۔ ساتوشی ناکامو تو (بٹ کوائن ) کی ایجاد کی اہمیت کو یہ لوگ سمجھتے تھے اور انکا یقین تھا کہ یہ نئی ایجاد فنی خرابیوں سے پاک ہے۔

1$-30$ (مارچ 2011-جولائی 2011) اس دوسرے مرحلے میں بٹ کوائن کی طرف توجہ دینے والوں میں چند نظریاتی سرمایہ کار اور حوصلہ افزائی کرنے والے لوگ شامل تھے۔ لوگ اس بے وطن رقم کے آغاز پر حیران تھے۔ “اگر نوزائیدہ کرنسی کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے تو یہ ممکن ہو سکتی ہے ” اسی نظریے کی خاطر راجر ویر جیسے آزادی پسندوں کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سرگرمیوں نے بٹ کوائن کی طرف راغب کیا ۔ Wences Casares جیسے شاندار اور منجھے ہوئے سرمایہ کار بھی بٹ کوائن کے ہائپ سائیکل کے دوسرے مرحلے میں شامل تھے۔ اس نے سیلیکون ویلی میں تکنیکی ماہرین اور سرمایہ کاروں کو بٹ کوائن کی طرف آنے کی ترغیب دی۔

250$-1100$ (اپریل 2013-دسمبر2013) بٹ کوائن کے تیسرے ہائپ سائیکل میں ابتدائی سرمایہ کاروں اور دیگر ادارہ جاتی عناصر کا داخلہ ہوا۔ یہاں پر خوفناک خطرات اور سرمائے کی لیکیوڈیٹی چینل سے دو چار ہونے جیسے رسک موجود تھے۔ اس پوائنٹ پر بٹ کوائنز خریدے جا سکتے تھے۔ اس زمانے میں مارکیٹ لیکیوڈیٹی کو کنٹرول کرنے والا ادارہ ایک جاپانی ایکسینچ MtGox تھا جسے مشہور زمانہ اور بدتمیز انسان مارک کارپیلس کی سرپرستی حاصل تھی۔ جسے بعد میں ایکسچینج کے خاتمے کے لئیے جیل بھیجا گیا۔

اس ہائپ سائیکل میں بٹ کوائن کی قیمت میں اضافہ سرمایہ کاروں کی آمد اور بٹ کوائن کی خریداری میں آسانی کے سبب تھا۔ پہلے ہائپ سائیکل میں تبادلے کے کوئی ذرائع نہیں تھے انہیں صرف مائننگ کر کے یا پھر جس شخص نے مائننگ کی ہو اس سے ڈائریکٹ رابطے میں رہ کر اس سے حاصل کیا جا سکتا تھا۔ دوسرے ہائپ سائیکل میں بٹ کوائنز کے ایکسچینج موجود تھے مگر یہ صرف چند مشہور سرمایہ کاروں کی دسترس میں تھے ، باقی سب کے لئیے اس میں پیچیدگیاں موجود تھی۔ہائپ سائیکل کے تیسرے مرحلے میں بھی رقم کی حصولی کے لئے MTGox کو بٹ کوائن بھیجنے والوں کے لئیے رکاوٹیں تھیں۔ بنک کے استعمال میں ہچکچاہٹ برتی جاتی تھی اور تھرڈ پارٹی ہمیشہ مجرم اور اس طرح کے لوگ تھے۔ بہت سے لوگوں نے ایکسچینج کے لئیے اپنے فنڈ جب اس ادارے کو بھیجے تو MTGox ہیک ہو گیا اور بعد میں بند ہو جانے کی وجہ سے ان لوگوں کو بہت نقصان پہنچا ۔

MTGox ایکسچینج کے خاتمے کے فوراً بعد ہی قیمت میں کمی آگئی مگر دو سال کے عرصے کے اندر اندر اس میں ذرائع کی پختگی بھی دیکھنے کو ملی۔ GDAX , OTC &جیسے بروکر Cumberland مائننگ اس میں پیش پیش تھے۔ 2016 میں جب بٹ کوائن کا چوتھا سائیکل شروع ہوا تو نئے سرمایہ کاروں کے لئے بٹ کوائن حاصل کرنا اور اس کا تبادلہ کرنا بہت آسان ہوگیا۔

1100$-19600$؟ (2014-؟)

اس وقت تک بٹ کوائن اپنے ہائپ سائیکل کے چوتھے بڑے مرحلے میں موجود ہے۔ اس سائیکل میں شراکت داروں کا غلبہ ہے جس کے بارے میں مائیکل کیسی کہتا ہے کہ یہ خوردہ اور ادارہ جاتی سرمایہ کاروں کی ابتدائی اکثریت ہے۔

اب لیکیوڈیٹی کے ذرائع گہرے اور پختہ ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے سرمایہ کاروں کے پاس مارکیٹس کے ذریعہ حصہ لینے کا موقع ہے۔ بٹ کوائن ETF کی تخلیق اب ریگیولٹد فیوچر مارکیٹس کی مرہون منت ہے۔ جس سے بعد کے ہائپ کے مرحلوں سے بعد میں آنے والے شامل ہوں گے اور آخر میں پسماندہ رہ جائیں گے۔

اس ہائپ سائیکل کی موجودہ قیمت کا اندازہ تو نہیں لگایا جا سکتا مگر مارکیٹ کا عروج 20000$ سے 50000$ تک ہوتا ہے۔ بٹ کوائن سونے کی بہت بڑی مارکیٹ کو کیپٹلائز کرنے والا ہے۔(سونے اور بٹ کوائن میں اس تحریر کی اشاعت کے وقت تقریبا 380000$ کی بٹ کوائن قیمت کے مساوی مارکیٹ کیپیٹلائزیشن ہو گی) سونے کی مانگ کا ایک بڑا حصہ مرکزی بنکوں سے آتا ہے مگر اس بات کا قوی امکان موجود نہیں ہے کہ مرکزی بنک اس ہائپ سائیکل کا حصہ ہیں یا نہیں۔

قومی ریاستوں کا داخلہ

بٹ کوائن اپنی ہائپ سائیکل کے آخری اور فائنل مرحلے میں اس وقت داخل ہوگا جب حکومتیں اسے غیر ملکی کرنسی کے طور پر رقم کے ذخیرے کی مد میں جمع کرنا شروع کر دیں گی۔ بٹ کوائن کی نئی کرنسی کے طور پر کیپٹلائزیشن بہت کم ہے مگر یہ ابھی بھی کئی ممالک کے لئیے ایک اچھا اضافہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر نجی شعبہ جات کے رجحان سے اس کا سرمایہ ایک ٹریلین تک پہنچ گیا تو زیادہ سے زیادہ ریاستوں کے منڈی میں داخل ہونے کیلئے یہ کافی حد تک مائع (لچکدار ) ہوجائے گا۔ باضابطہ طور پر بٹ کوائن کی منڈی میں داخل ہونے والی ریاستیں باقی دنیا کی معیشت میں بھگدڑ کا سماں پیدا کر دیں گی۔ اور بٹ کوائن کی منڈی میں پہلے داخل ہونے والی ریاستوں کو معاشی طور پر ملنے والے فائدے نمایاں ہوں گے۔ مگر بد قسمتی سے یہ مضبوط نظامتی سسٹم والی ریاستیں ہی ہونگی ۔ شمالی کوریا جیسی آمریتیں بٹ کوائن میں تیزی سے اضافہ کرنے والی مملکتیں ہوں گی۔ یہ ریاستیں اپنے ملکی ذخائر میں اضافے کی خواہش مند ہوں گی جبکہ دیگر مغربی ریاستوں کی انتظامی کمزوریاں انہیں اس معاملے میں پست رکھیں گی۔

امریکہ اس وقت بٹ کوائن میں سب سے بڑی ریگولیٹری پوزیشن کا حامی ہے جبکہ چین اور روس اس کے مخالف ہیں۔ اگر بٹ کوائن ڈالر کو دنیا کی ریزرو کرنسی کے طور پر تبدیل کردے گا تو امریکہ کو جغرافیائی لحاظ سے کافی حد تک سیاسی پوزیشن میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 1960 کی دہائی میں چارلس ڈی گالیو نے بے حد استحقاق کی مخالفت کی۔ چین اور روس میں ابھی تک جغرافیائی فوائد کے لئے آگاہی موجود نہیں ہے وہ صرف بٹ کوائن کے، ان کی اندورنی مارکیٹ پر ہونے والے اثرات سے نمٹ رہے ہیں۔ ڈی گال کی طرح امریکہ کے استحقاق کے جواب میں جس نے سونے کے مالیتی معیار کو قائم کرنے کی دھمکی دی تھی چین اور روس کو بھی اس سے فائدہ ہونے والا ہے۔ بٹ کوائن مائننگ کا سب سے بڑا ارتکاز ہونے کی وجہ سے چینی معیشت پہلے ہی اس کے خاص فوائد حاصل کر رہی ہے۔

امریکہ کو اختراعی قوم ہونے پر فخر ہے۔ سلیکون ویلی اس سلسلے میں ان کی مددگار ہے ۔ اب تک ریگیولٹری کے سلسلے میں سلیکون ویلی نے بات چیت میں غلبہ حاصل کیا ہے۔ بہرحال امریکہ کے لئیے خطرے کی گھنٹی اس حالت میں سنائی دیتی ہے جب بٹ کوائن عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر جانا جانے لگے گا۔

وال سٹریٹ جرنل میں امریکہ کے لئے خطرے کا اشارہ کچھ یوں بیان کیا گیا۔

“مرکزی بینکوں اور ریگولیٹرز کے نقطہ نظر سے شاید اس سے بھی زیادہ سنگین خطرہ ایک اور ہے۔ بٹ کوائن شاید کریش نہ ہو۔ اگر کرپٹو کرنسی میں قیاس آرائی کا جوش محض اس کا پیش خیمہ ہے کہ اسے ڈالر کے متبادل کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، تو پیسے پر مرکزی بینکوں کی اجارہ داری کو خطرہ ہو گا۔”

آنے والے سالوں میں بٹ کوائن کو ریاستی کنٹرول سے باہر رکھنے کے لئیے سلیکون ویلی میں سرمایہ کاروں کے درمیان زبردست جدوجہد سامنے آئے گی۔ بینکنگ انڈسٹری اور مرکزی بنک ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اس کو روکا جاسکے کیونکہ پیسہ جاری کرنے کی صلاحیت پر ان کی اجارہ داری ختم ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

زرمبادلہ کے ذریعے منتقلی

جب تک ایک قیمتی شے کی وسیع پیمانے پر قدر نہ جانی جائے وہ چیز تبادلے کی قدر ( پیسے کی تعریف) کے طور پر استعمال ہونے کے قابل نہیں ہوتی۔ وسیع پیمانے پر قدر اور قیمت کے ذخیرہ کے طور پر استعمال ہونا اس کی قوت خرید میں اضافہ کرے گا۔ جب اسے قیمت کے طور پر قبول کرنے کا موقع مناسب حد تک کم ہوجائے تب ہی یہ تبادلہ کے لئیے عام قبول شدہ طریقہ کے طور پر رائج ہو سکتا ہے۔

مزید وضاحت کے طور پر ایک مالیاتی چیز صرف اور صرف تبادلےکے لیے ہی موزوں ہو گی اور موقع پر اس کی موجودہ قیمت اور تبادلے میں استعمال ہونے والی لاگت کے بغیر اس کی لین دین کی لاگت سے کم ہو جائے گی ۔

بارٹر سسٹم میں قدر کے ذخیرے کی مالیت کی مقبولیت میں اضافہ اس وقت بھی ممکن ہے جب اسکی قوت خرید بڑھ رہی ہو۔ کیونکہ بارٹر سسٹم میں لین دین کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں۔ تیزی سے بڑھنے والے معاشرے میں نئی آنے والی اشیاء کی قدر میں اضافہ ہو سکتا ہے اگرچہ اسکا دائرہ کار محدود حد تک ہو۔ اس کی ایک مثال میں منشیات کی غیر قانونی منڈی شامل ہے۔ جہاں منشیات فروش بٹ کوائن رکھنے کے موقع کو گنوا کر فیاٹ کرنسیوں میں تجارت کرتے ہیں تا کہ منشیات فروشی میں پیش آنے والے خطرات سے نمٹا جا سکے۔

تا ہم ایک ترقی کرتے معاشرے میں قیمت کے نئے ذخیرے کو تبادلے کے لئیے استعمال ہونے تک کئی ادارہ جاتی رکاوٹوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ حکومت سب سے کامیاب ہتھیار ٹیکس کو استعمال کرتی ہے تا کہ اپنی کرنسی کو کسی مقابل کرنسی کے ہاتھوں بے گھر ہونے سے بچایا جا سکے۔ ایک خودمختار رقم کو مانگ کا مستقل فائدہ ملتا ہے اور ٹیکس کی مانگ بھی اسی کرنسی کی شکل میں کی جاتی ہے ۔ جب کہ دوسرا اسی درجے کی قدر پر ٹیکس لگایا جاتا ہے۔ اس قسم کی رکاوٹیں اس کرنسی کو زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہونے سے روکتی ہیں۔

اگر کسی کرنسی پر اعتبار ختم ہوجائے تو انفلیشن کے عمل میں اس کی قدر گر کر کم رہ جاتی ہے۔ اگر کسی مروجہ سکے میں افرط زر بڑھ جائے تو سب سے پہلے اسکی قیمت سب سے زیادہ مائع اشیاء کے مقابلے میں گرتی ہے جیسے کہ سونا وغیرہ۔ اگر مائع چیز دستیاب نہیں ہے تو پیسے کی قدر ضروریات کی چیزوں کے خلاف گر جاتی ہے جیسے کہ رئیل اسٹیٹ وغیرہ۔ ہائپر انفلیشن کی ایک مثال ایک خالی گروسری سٹور ہے کیونکہ صارف اپنے ملکی پیسے کی مسلسل کم ہوتی قیمت سے بھاگ جاتے ہیں۔

بالآخر جب افراط زر انتہاء درجے تک بڑھ جاتا ہے تو ایک خودمختار کرنسی کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا۔ پھر معاشرہ یا تو بارٹر سسٹم پر چلا جائے گا یا پھر زر کی اکائی کو مختلف طور پر بدل دیا جائے گا۔ اس کی ایک مثال زمبابوے ڈالر کو امریکی ڈالر سے بدلنا ہے۔ غیر ملکی لیکیوڈیٹی کی قلت اور غیر ملکی بنکوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے تبدیلی کا یہ عمل انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔

بٹ کوائن کی یہ خصوصیات جیسے کہ سرحدوں سے پار منتقلی اور بنا کسی ادارہ جاتی کنٹرول کے بٹ کوائن کو وہاں بھی مروج کرنے میں مددگار ہوتی ہیں جو معاشرے افراط زر سے لڑ رہے ہیں ۔ آنے والے برسوں میں جیسے جیسے فیاٹ کرنسیاں اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہیں، بٹ کوائن بچتوں کو ذخیرہ کرنے کے رجحان میں مقبولیت پا جائے گا۔ جب کسی قوم کا پیسہ چھوڑا جاتا ہے تو اسکی جگہ بٹ کوائن لے لیتا ہے ۔ یوں بٹ کوائن کی مقبولیت ذخیرہ کرنے کی قدر سے بڑھ کر زرمبادلہ کے طور پر استعمال ہونے تک بڑھ جائے گی۔ اس عمل کی تفصیل کے لئیے ڈینئیل کراؤز نے ” hyperbitcoinization” کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

عام غلط فہمیاں

اس مضمون کا زیادہ تر حصہ بٹ کوائن کی مالیتی نوعیت کی تفصیل میں گزرا اب ہم بٹ کوائن کے بارےمیں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو بیان کرتے ہیں۔

بٹ کوائن ایک بلبلہ ہے۔

بٹ کوائن بھی مارکیٹ پر مبنی دوسری مالیاتی اشیاء کی طرح ایک مانیٹری پریمیم رکھتا ہے۔ مانیٹری پریمیم عام تنقید کی وجہ بن جاتا ہے جس سے یہ سوچ جنم لیتی ہے کہ بٹ کوائن ایک بلبلہ ہے۔ مگر تمام قیمتی اقدار ، یہ مانیٹری پریمیم ضرور دکھاتی ہیں۔ جو کہ ان کی وضاحتی خصوصیات میں سے ایک ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پیسہ ہمیشہ اور ہر جگہ ایک بلبلہ ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کوئی بھی قیمتی شے اگر قیمت کے طور پر استعمال ہونے کے ابتدائی مرحلے میں ہو تو اسکی قیمت قدرے کم کی جا سکتی ہے۔

بٹ کوائن بہت زیادہ غیر مستحکم ہے۔

بٹ کوائن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اس میں نفاست کو واضح کرتا ہے۔ ابتدائی سالوں میں یہ پینی سٹاک کے طور پر کام کرتا ہے اور کوئی بھی بڑا سرمایہ کار یا خریدار جیسے کہ ونکلیوس اسکی قدر میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ پچھلے چند سالوں سے اسکی مقبولیت میں اضافے کی وجہ سے لیکیوڈیٹی میں اضافہ دیکھا گیا ہے جس سے اسکی قیمت میں اتار چڑھاؤ میں کمی واقع ہوئی ہے۔ جب بٹ کوائن ، سونے کی کیپٹلائزیشن میں داخل ہو گا تو یہ ایسے ظاہر کرے گا جیسے کہ سونے پر سبقت لے جائے گا ۔ اس میں اتار چڑھاؤ اس حد تک کم ہو جائے گا کہ اسے وسیع پیمانے پر قیمت کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ بٹ کوائن ایک ہائپ سائیکل کے تحت کام کرتا ہے ۔ پیلٹیو مرحلے میں اسکا اتار چڑھاؤ سب سے کم ہوگا اور سائیکل کی پیک پر اور کریش کے وقت یہ اتار چڑھاؤ زیادہ ہوجاتا ہے۔ مارکیٹ کی لیکیوڈیٹی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہائپ سائیکل کے ہر مرحلے میں اتار چڑھاؤ پہلے مرحلے کی نسبت کم رہ جاتا ہے۔

لین دین کی اجرت بہت زیادہ ہے۔

بٹ کوائن پر حالیہ تنقید یہ آئی ہے کہ بٹ کوائن کی فیس اسے لین دین کے طور پر استعمال کرنے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ حالانکہ یہ فیس بالکل موزوں ہے جو مائننگ کرنے والوں کے لین دین میں توثیق اور نیٹ ورک کو مزید محفوظ بنانے کے لئیے ضروری ہے۔ مائننگ کرنے والوں کو فیس بلاک کے انعامات کی صورت میں جاری کی جا سکتی ہے۔ جو کہ بٹ کوائن مالکان کی جانب سے افراط زر برداشت کرنے کی سبسڈی ہے۔ بٹ کوائن کی مقررہ سپلائی کے شیڈول جو اسے قیمت کے ذخیرہ کے طور پر استعمال ہونے کے لئیے مثالی بناتے ہیں، اس کی روشنی میں بلاک انعامات آخر پر صفر تک گر جائیں گے اور نیٹ ورک کو ٹرانزیکشن فیس کے ساتھ محفوظ ہونا پڑے گا۔ کم فیس والا نیٹ ورک بالکل بھی محفوظ نہیں ہوتا اور یہ سنسرشپ کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ کم فیس والے نیٹ ورک کا دعویٰ کرتے ہیں وہ انجانے میں اس کی کمزوری کو بیان کر رہے ہوتے ہیں۔

بٹ کوائن کی فیس زیادہ ہونے پر تنقید کا نظریہ یہ چاہتا ہے کہ بٹ کوائن کو زرمبادلہ پہلے اور ذخیرہ کرنے کی قدر بعد میں ہونا چاہئیے۔ پیسے کی تاریخ یہ کہتی ہے کہ اس عقیدے کے حامی ، گاڑی کو گھوڑے سے پہلے رکھنا چاہتے ہیں۔ جب بٹ کوائن ذخیرہ کی اعتماد شدہ رقم بنے گا تو ہی اس کو زرمبادلہ کی قیمت کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔ جب بٹ کوائن کو زرمبادلہ کے طور پر استعمال کیا جائے گا تو اسکا لین دین بٹ کوائن نیٹ ورک کی بجائے قدرے سستے سیکنڈ لئیر نیٹ ورکس کے ذریعے کیا جائے گا۔ جیسے کہ لائٹننگ نیٹ ورک پرامسری نوٹوں کی برابری کی مالیت فراہم کرتے ہیں۔ پرامسری نوٹ بنکوں کی طرف سے سونے یا چاندی کی نمائندگی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں کیونکہ پرامسری نوٹوں کی نقل و حمل سونے یا چاندی کی منتقلی سے زیادہ آسان ہے۔ اسی طرح سیکنڈ لئیر لائٹننگ نیٹ ورک بٹ کوائن کی منتقلی کی اجازت دے گا مگر اس میں بنکوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا ۔ یہ نیٹ ورکس انسانی تاریخ میں بہت بڑی اختراع کا مقام حاصل کرنے جا رہے ہیں کیونکہ انہیں بہت جلد ہی بنایا اور اپنایا جائے گا۔

مقابلہ

اوپن سورس سافٹ ویئر کی طرز پر کام کرنے کی وجہ سے اسکو کاپی کیے جانے کا خطرہ ہمیشہ سے رہا ہے ان سالوں کے درمیان کئی نقلی سکے بنائے گئے جیسے کہ Ethereum & Litecoin جو کہ بٹ کوائن ہی کی طرز کے عمل کا معاہدہ کرتے ہیں۔ بٹ کوائن پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ بٹ کوائن اپنی قدر کو برقرار نہیں رکھ سکے گا ۔ اسکے حریف جنم لے سکتے ہیں جو کہ جدید سافٹ ویئر پر مشتمل ہو سکتے ہیں ۔

اس غلط فہمی کا نمایاں عنصر یہ ہے کہ اتنے سالوں میں بننے والے حریف نیٹ ورک ایفیکٹ اور جدید ٹیکنالوجی کے غالب ہونے کا فقدان رکھتے ہیں۔ نیٹ ورک ایفیکٹ بٹ کوائن کے حصے میں صرف اس لئیے ہے کہ یہ پہلے سے ہی غالب نیٹ ورک کے طور پر موجود ہے۔ اور یہ اب تک کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔

بٹ کوائن کا نیٹ ورک ایفیکٹ اس کے سرمایہ کاروں ، مارکیٹس کی دستیابی ، مالک افراد ،برانڈ کی آگاہی اور مضبوط سافٹ ویئر پر مشتمل ہے۔ قومی ریاستیں زیادہ مائع منڈی کی تلاش کریں گی جہاں وہ آسانی سے داخل اور نکل سکیں اور قیمت بھی متاثر نہ ہو ۔ جبکہ بٹ کوائن کے ڈویلپر غالباً ترقیاتی کمیونٹی کی بھلائی کی طرف جائیں گے۔ اور بٹ کوائن کی برانڈ کی آگاہی بھی ہوتی ہے جیسے کہ بٹ کوائن کے حریفوں کو بٹ کوائن کے تناظر میں یاد کیا جاتا ہے۔

سڑک میں ایک کانٹا

2017 میں مقبول ہونے والا ایک رجحان بٹ کوائن کی کاپی اور اس کی مکمل تاریخ کی کاپی کرنا تھا۔ بٹ کوائن کے حریفوں نے بلاک چین کوکاپی کر کے اسے مزید نیٹ ورکس میں تقسیم کر دیا جسے فورکنگ کا عمل کہا جاتا ہے۔ یوں یہ حریف اپنے ٹوکن کو صارفین کی بڑی مقدار میں تقسیم کرنے کے مسئلے کے حل کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس قسم کا ایک واقعہ 1 اگست 2017 کو پیش آیا جب ایک نیا نیٹ ورک جسے بٹ کوائن کیش Bcash کہا جاتا ہے ۔ یکم اگست 2017 سے پہلے N Bitcoins اور N BCash کے مالک نے حقیقی بٹ کوائن ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان کی پہچان تو ختم کر دی گئی تا ہم ابھی بھی اسی طرح کے حریفوں کے حملے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے کیونکہ یہ بلاک چین کوکاپی کر کے نئے سرمایہ کاروں کو حقیقی بٹ کوائن ہونے کا یقین دلا سکتے ہیں اور بہتر ٹیکنالوجی کو متعارف کروا کے اجاراہ داری قائم کر سکتے ہیں۔ اس طرح مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں بٹ کوائن کو پیچھے چھوڑ دیا جائے گا اور اس طرح یہ ڈی فیکٹو بٹ کوائن بن جائے گا۔

Ethereum & Bitcoin کے کیس سے ہمیں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مارکیٹ کیپٹلائزیشن وہ پارٹی طے کرے گی جس کی ڈویلپر کمیونٹی زیادہ فعال ہو گی۔ بٹ کوائن ایک نوزائیدہ کرنسی ہے جس کی بنیاد سافٹویئر پر ہے جسے ہر وقت بہتر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسے نیٹ ورک پر ٹوکن خریدنا جہاں پر ڈویلپرز ناتجربہ کار ہوں بالکل ایسے ہے جیسے مائکرو سافٹ ونڈوز کا کلون خریدنا جسے مائکرو سافٹ نے ریجیکٹ کر دیا ہو۔ دو ہزار سترہ کے واقعے نے یہ ثابت کیا کہ ڈیجیٹل ایکسپرٹس اور کرپٹو گرافر بٹ کوائن کی مقبولیت میں دلچسپی رکھتے ہیں نہ کہ اس سے بننے والے دیگر کرپٹو میں جو بٹ کوائن کی نقل سے تیار کیے گئے ہیں۔

حقیقی خطرات

اگرچہ بٹ کوائن پر ہونے والی تنقید شروع سے ہی پیسے کی ارتقاء کے طریقے سے نا بلد ہونے کی وجہ سے ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ بٹ کوائن کو کبھی کوئی خطرات موجود نہیں رہے ہیں ۔ کسی بھی کرپٹو کے سرمایہ کار کے لئیے ان خطرات کو سمجھ لینا سمجھداری کی نشانی ہو سکتا ہے۔

پروٹوکول کا خطرہ

بٹ کوائن پروٹوکول اور پرائمیٹوز جن پر ان کو ڈیزائن کیا گیا ہے اس میں کوئی بھی خامی آ سکتی ہے۔ اگر کوانٹم کمپیوٹنگ میں ترقی ہو جاتی ہے تو یہ غیر محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔ اور پروٹوکول میں خامی کے ساتھ حساب کے کوئی نئے طریقے بٹ کوائن کے پیچھے موجود خفیہ نگاری کو توڑنا ممکن بنا دیتے ہیں تو بٹ کوائن پر موجود اعتماد پر شدید سمجھوتے کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ شروع کے سالوں میں بھی جب ابھی تک بازنطینی مسئلے کے حل کی تلاش کے بارے میں دریافت نہیں ہوا تھا اس وقت بھی سب سے زیادہ پروٹوکول کے خطرات تھے۔ یہ پروٹوکول کے خطرات سالوں پہلے ختم ہوگئے تھے مگر پھر بھی اس کی تکنیکی وضع کی وجہ سے بیرونی خطرات کے طور پر پروٹوکول کا خطرہ ہمیشہ رہے گا۔

ایکسچینج کی بندش

ڈی سینٹرلائز ڈیزائن کی وجہ سے بٹ کوائن نے حکومتوں کی طرف سے بندش اور پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئیے لچک کا مظاہرہ کیا ۔ تا ہم ایسی ایکسچینج جہاں بٹ کوائن کو فیاٹ کرنسی کے ساتھ تجارت کے لئیے استعمال کیا جاتا ہے وہ مرکزی خصوصیات کی حامل ہیں اور اس طرح کی پابندیوں کے لیے حساس ہیں۔ ان ایکس چینجز اور ان سے وابستہ بنک کاری نظام کی اجازت کے بغیر بٹ کوائن کی تجارت رک جائے گی۔ جبکہ بٹ کوائن کی لیکیوڈیٹی کے اور بھی ذرائع ہیں جیسے کہ OTC اور خرید و فروخت کے لئیے ایک ڈی سنٹرلائزڈ مارکیٹ localbitcoins.com وغیرہ ۔

ایکسچینج کے بند ہونے کے خطرے کے کو کم کرنا دائرہ اختیاری ہے۔ جیسے کہ چین میں شروع ہونے والا بائنانس چین میں تجارت رک جانے کے بعد جاپان منتقل ہوگیا۔ حکومتیں ایک نئی صنعت کو تباہ کرنے سے بھی گریزاں ہیں جس کے ثمرات انٹرنیٹ سے مطابقت رکھتے ہیں۔

تمام بٹ کوائنز کے ایکس چینجز کو شٹ ڈاؤن کر کے اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے مگر بٹ کوائن کو اتنا مستحکم اور وسیع بنایا جا رہا ہے کہ بٹ کوائن کو پابندی لگانا ایسا ہی ہوگا جیسے کہ انٹرنیٹ کو دنیا سے مکمل طور پر بند کر دینا۔ مگر اس طرح کا خطرہ واقعی حقیقی ہے جسے مد نظر رکھا جانا چاہئیے ۔ حکومتی مداخلت کی وجہ سے بیان کیا گیا تھا کہ یہ سنسرشپ سے مزاحم ہے اور کنٹرول سے پاک ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ اس قدر مؤثر ہو سکتا ہے کہ کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی اسے روکنے میں کامیاب نہ ہو۔

فنجیبیلٹی

بٹ کوائن کا بلاک چین سسٹم شفاف حکومتوں کے لئیے ممکن بناتا ہے کہ وہ ناجائز سرگرمیوں میں استعمال ہونے والے کوائنز کو نشان زدہ کردے ۔ تا کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے لئیے بٹ کوائن کو استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی نہ کی جا سکے ۔ اس سے یہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ نشان زدہ بٹ کوائن بالکل بیکار ہوجائیں گے اور ان کی کوئی قدر باقی نہیں رہے گی جس سے یہ اپنی ایک صفت کھو دے گا یعنی کہ فنجیبیلٹی ۔

بٹ کوائن کی فنجیبیلٹی کو بہتر بنانے کے لئیے اور رازداری کو قائم رکھنے کے لئے اس کے پروٹوکول میں بہتری لانا لازم ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں نئی پیش رفت مونیرو اور زیڈ کیش کی صورت میں سامنے آئی ہیں۔ اس کی پیچیدگی اور رازداری پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر کیا اس کی پرائیویسی کو بہتر کرنے والی خصوصیات شامل کرنے کے لئیے ایسی احتیاطی تدابیر مدنظر رکھی جائیں گی کہ پیسے کے طور پر اسکی افادیت کم نہ ہو۔

نتیجہ

بٹ کوائن ابھی ابتدائی مراحل میں ہے جہاں یہ رقم کے ذخیرہ سے قیمتی قدر کے طور پراستعمال ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک خودمختار مالیتی شے کے طور بہت جلد یہ عالمی طور پر کرنسی کے رتبے پر مانا جائے گا ۔ بالکل ایسے ہی جیسے انیسویں صدی میں سونے کے ساتھ معاملہ تھا۔ بٹ کوائن کو عالمی رقم کے طورپر مانے جانے کے بعد اسکی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا۔ 2010 میں مائیک ہیرن کو کی گئی ایک ای میل میں ساتوشی ناکامو تو نے یوں لکھا تھا کہ:

“اگر آپ تصور کرتے ہیں کہ اسے عالمی تجارت کے کچھ حصے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، تو پوری دنیا کے لیے صرف 21 ملین سکے ہوں گے، تو اس کی قیمت فی یونٹ بہت زیادہ ہوگی۔”

پہلے بٹ کوائن کے سافٹویئر کے بعد کرپٹوگرافر ہال فنی پہلا شخص تھا جس نے بٹ کوائن کو ریسیو کیا۔

“تصور کریں کہ بٹ کوائن کامیاب ہے اور پوری دنیا میں استعمال ہونے والا ادائیگی کا غالب نظام بن گیا ہے۔ پھر کرنسی کی کل قیمت دنیا کی تمام دولت کی کل قیمت کے برابر ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں گھریلو دولت کا موجودہ تخمینہ جو میں نے $100 ٹریلین سے 300$ ٹریلین تک لگایا ہے۔ 20 ملین سکوں کے ساتھ، جس میں ہر سکے کی قیمت تقریبا 10 ملین ڈالر ہو گی ۔

اس وقت بٹ کوائن پوری طرح سے ایک عالمی پیسہ نہیں بنا تھا بس قدر کے ذخیرے کے طور پر اس کا سونے کیساتھ مقابلہ تھا۔ بہرحال اس کی بڑے پیمانے پر قیمت کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس کی سپلائی بیس ملین سکوں کے ساتھ ممکن ہے جبکہ سونا آٹھ ٹریلین ڈالر کی کیپٹلائزیشن کا نقشہ 3800000$ فی بٹ کوائن کی قیمت دیتا ہے ۔ وہ تمام صفات جو کسی شے کو مثالی زر بناتی ہیں بٹ کوائن ان تمام صفات کے لحاظ سے سونے سے بہتر ہے سوائے ایک قائم شدہ تاریخ کے۔ لنڈی ایفیکٹ کی وجہ سے یہ صفت بھی بٹ کوائن کے لئے خاطرخواہ رکاوٹ نہیں بنے گی اور بہت جلد بٹ کوائن سونے سے زیادہ مالیت کی کیپٹلائزیشن مارکیٹ حاصل کر لے گا۔ اب بات یہ ہے کہ بینک سرمائے کے طور پر سونا رکھتے ہیں ۔ اسی طرح بٹ کوائن کو اپنی عالمی بڑھوتری کے لئے بعض جمہوریتوں کو ساتھ ملانا ہوگا ۔ اب یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنے کیپیٹل سسٹم کو بٹ کوائن میں ضم کرنے کی اجازت دیں گے یا نہیں مگر بٹ کوائن کی کیپٹلائزیشن میں آمریتیں پہلے داخل ہو جائیں گی۔

اگر کوئی قومی حکومت بٹ کوائن میں حصہ نہیں لیتی پھر بھی اسکی تیزی و ترقی کا معاملہ جاری رہے گا۔ یہ ایک خودمختار مالیتی ذخیرہ کے طور پر موجود ہے اور رہے گا ۔ نام نہاد ابتدائی اکثریت اس میں شامل تو ہو چکی ہے مگر بعد میں آنے والی ٹریفک اور پسماندہ رہ جانے والی ٹریفک ابھی اس سے سالوں دور ہے۔ خوردہ سرمایہ کاروں کے ساتھ اس کی قیمت 100000- 200000 $ تک متوقع ہے۔

بٹ کوائن میں نقصان ایک فیصد تک ہو سکتا ہے جبکہ اس میں فائدے کے امکانات سو فیصد سے بھی زیادہ ہیں ۔ یہ پہلا اقدار کا بلبلہ ہے جو کہ انفرادیت کے اپنی بچتوں کو حکومتی اثرات سے بچانے کی خواہش پر مشتمل ہے۔ درحقیقت دو ہزار آٹھ کی بنکوں کی پابندیوں کی وجہ سے جو معاشی نظام کی تباہی ہوئی بٹ کوائن اس سے phoenix کی طرح ابھرا ہے۔

بٹ کوائن کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے اس کے غیر مختار صفت ہونے پر بہت سے سیاسی اور جغرافیائی شبہات ابھریں گے۔ ایک غیر سرکاری غیر مختار اینٹی انفلیشن کی صفت رکھنے والی کرنسی دنیا کی بنکاری نظام کو مجبور کر دے گی کہ افراطِ زر کے میکانزم کو کنٹرول کر کے براہ راست ٹیکس کے نفاذ کا طریقہ اپنایا جائے اور یہ بات سیاسی طور پر پسند نہیں کی جائے گی۔ عملی طور پر چارلس ڈی گال کا یہ قول پورا ہوتا نظر آئے گا کہ کسی ملک کو کسی دوسرے ملک پر استحقاق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔

“ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی تجارت قائم کی جائے، جیسا کہ دنیا کی بڑی بدقسمتیوں سے پہلے، ایک ناقابل تردید مالیاتی بنیاد پر، اور جس پر کسی خاص ملک کا نشان نہ ہو۔”

اب سے پچاس سال بعد مانیٹری بیس بٹ کوائن ہوگا۔